🏴۔ امتی پیغام۔۔۔ 💐۔۔۔۔۔۔📢
📞 فون کال: سہولت یا مداخلت؟
دورِ جدید میں خاموشی بھی مہذب گفتگو کا حصہ ہے
آج کے باخبر اور تیز رفتار معاشرے میں اچانک کسی کو بغیر اطلاع کے کال کر دینا اکثر ناپسندیدہ اور غیر مہذب مداخلت سمجھی جاتی ہے۔
فون کالز، جو ایک زمانے میں رابطے کی نعمت ہوا کرتی تھیں، اب اکثر لوگوں کے لیے ذہنی خلل، الجھن اور پریشانی کا سبب بن جاتی ہیں۔
📌 کیا ہم سوچتے ہیں؟
جب آپ کسی کو کال کرتے ہیں، تو درحقیقت:
آپ بغیر اجازت اس کے وقت، ماحول اور ذہن میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں۔
آپ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ وہ شخص بھی اسی لمحے فارغ، مطمئن اور دستیاب ہو گا جیسے آپ۔
حالانکہ ممکن ہے کہ وہ:
کسی اہم میٹنگ میں ہو،
مریض کے ساتھ ہو یا ڈاکٹر ہو،
عبادت یا نیند میں ہو،
قیلولہ یا عائلی وقت میں ہو،
یا کسی نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو۔
❝ اچھی نیت کے باوجود بےوقت کال ایک شخص کی ذہنی فضا پر حملہ بن سکتی ہے۔ ❞
🔬 تحقیق کیا کہتی ہے؟
سائیکولوجیکل تحقیق بتاتی ہے کہ اچانک فون کال:
انسان کی توجہ منتشر کر دیتی ہے۔
تخلیقی یا علمی کام کے دوران اس کی Flow State (جہاں ذہن پوری یکسوئی سے کام کر رہا ہو) کو توڑ دیتی ہے۔
اس کے بعد انسان کو دوبارہ اسی ذہنی کیفیت میں آنے میں کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔
📖 قرآن و سنت کی روشنی میں: اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا”
"اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک اجازت نہ لے لو اور سلام نہ کرو۔”
— (سورہ النور 24:27)
یہ اصول جسمانی حدود کے لیے ہے، لیکن آج کے دور میں ڈیجیٹل مداخلت بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
> "المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِن لِّسَانِهِ وَيَدِهِ”
"سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔” — (صحیح بخاری)
کیا آج ہم دوسروں کے ذہن، وقت، اور سکون کو اپنی کالز سے محفوظ رکھ رہے ہیں؟
☕ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
اچانک کال سے گریز کریں۔
پہلے ایک مختصر پیغام یا WhatsApp نوٹ بھیجیں:
"کیا آپ کچھ دیر کے لیے دستیاب ہیں؟ ایک بات کرنی تھی۔”
معمولی یا غیر فوری باتیں میسج یا وائس نوٹ میں کر لیں۔
ایمرجنسی میں کال کریں، نہ کہ عادتاً۔
🧠 شعور اور مہذب طرزِ معاشرت
ہر انسان کا حق ہے کہ وہ اپنے وقت، توجہ اور توانائی کا خود مختار مالک ہو۔
فون کا جواب دینا نہ کوئی دینی فریضہ ہے، نہ اخلاقی تقاضا۔
یہ ایک اختیاری امر ہے جو باہمی رضا، احترام اور مہذب معاشرت پر قائم ہے۔
📌 سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور میں فون کا جواب دینا نہیں، بلکہ دوسرے کے وقت کو سانس لینے دینا اعلیٰ اخلاق ہے۔
📢 نتیجہ:
رابطے میں شائستگی صرف الفاظ میں نہیں، وقت کے انتخاب اور دوسرے کے ماحول کی عزت میں بھی پنہاں ہے۔
آئیے، ہم ایک ایسے شعور کو فروغ دیں جو باوقار خاموشی، مہذب رابطے اور دینی بصیرت کے امتزاج سے ایک بہتر اور پُرامن معاشرے کی طرف لے جاۓ۔






